پنج شنبه 9 فروردین 1403

14 August 2023

' قائد الجیش اسلامیہ کا میڈل ''

' قائد الجیش اسلامیہ کا میڈل ''


  بقلم؛ سیّد تصور حسین نقوی ایڈووکیٹ
دریائے اُردن کے مغربی کنارے کو اپنی آزادی کا بیس کیمپ قرار دیکر مقبوضہ علاقے میں اسرائیل کے خلاف سرگرمیاں کرنے والے فلسطینیوں کی طاقت سے گھبرا کر اور اسرائیل کی بقاء اور مشرق وسطیٰ میں اسکی بالادستی کو کم ہوتے دیکھ کر امریکہ اور اسکے اتحادی سعودی عرب اور اسرائیل کی ایماء پر اُردن کے بادشاہ،  شاہ حسین نے فلسطینی پناہ گزین کیمپوں کے خلاف آپریشن کروانے کا فیصلہ کیا جبکہ اس کی فوج  اپنے ہم مذہب اور رشتہ داروں کو کچلنے سے کترا رہی تھی۔ ہمارے بہادر جنرل ضیا ء الحق  اسوقت بریگیڈئیر تھے اور  اقوام متحدہ کی امن  فوج میںتعینات تھے۔ آپ نے فوری طور پراس نیک کام کے لئے اپنی خدمات فراہم کردیں اور١٥ ستمبر ١٩٧٠ ء کو نہتے  فلسطینیوں کو اس طرح کُچلا کہ اسرائیلی وزیر اعظم بھی بول اُٹھا کہ اتنے فلسطینی تو ہم نے تیس سال میں نہیں مارے جتنے ضیاء الحق نے گیارہ دنوں میں مارے،  یہ ہستی بعد میں مرد مومن مرد حق  اور شہید کہلائی  جبکہ فلسطینی آج بھی  اپنے بچوں کو ضیاء الحق اور بلیک ستمبر کے پاکستانی مظالم کی داستانیں سُناتے ہیں۔  موصوف نے بعد ازاںپاکستان کو کمیونزم کے خلاف اتحاد سیٹو اور سینٹو میں جھونکا اور پرائی جنگ میں صرف ڈالر کمانے کی غرض سے سرد جنگ میںبراہ ِ راست امریکہ کا اتحادی بھی بنایا ، جسکے نتیجے میں  پاکستان میںامریکی اسلحے کے انبار لگے اور حکومتی سرپرستی میں کلاشنکوف کلچر اور امریکہ کی جنگ کے لیے افغان جہاد کے نام پر تکفیری  طالبان مدارس کا نیٹ ورک  پاکستان میں بنایا اور امریکہ  کے کہنے پر  پاکستانیوں کو اس آگ میں دھکیل دیا جس کے ثمرات آج تک خود کُش  دھماکوں ، فرقہ واریت ، مذہبی منافرت ،انتہا پسندی اور دہشت گردی ، کلاشنکوف کلچر اور سمگلنگ کے فیض کی صورت میں قوم کو مل رہے ہیں۔ضیا ء الحق  افواج ِ پاکستان کے سربراہ اور  پاکستان کے چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر ر اور سیاہ و سفید کے اکیلے مالک رہے ۔ امیر المومنین ، مردمومن مرد حق کے القابات پائے لیکن ناگہانی موت کا شکار ہوکر تاریخ کی کتابوں میں سیاہ کردار بن گئے۔ ضیا ء الحق کی روح واپس آکر جشن مناتی اس وقت دیکھی گئی جب راحیل شریف کی قیمت ریال میں لگی اور  انہوں نے ریالوں کے عوض اپنی وفاداریاں کسی اور ملک کی فوج کو بیچ دیں۔  دنیا کی نمبر ون فوج کی کمان جنرل قمر جاوید باجوہ کو سونپ کر اسلامی اتحادی افواج کی کمان سنبھالنے کا عطیہ شاہی قبول کرنے والے جنرل راحیل شریف  کی گردن میں اسّی ہزار ڈالرکی مالیت سے  تیار کردہ بابرکت اسلامی سپہ سالاری کا میڈل لٹکتا دیکھ کر لگتا یوںہے کہ یہ سب کچھ  پہلے سے طے تھا اس لئے موصوف نے اپنی مدت ملازمت میں توسیع نہیں کروائی اور ملک کی خدمت کرنے کی بجائے آل سعود کی خدمت کو ترجیح دی۔اسوقت جب کہ یمن کے نہتے عوام پر آگ و خون کی بارش جاری ہے،  بحرین کے عوام کی پرامن سیاسی جدوجہد کو طاقت و بندوق کے زور پر کچلا جا رہا ہے نائیجیریا میں  مسلکی بنیاد پر پُرامن  اور نہتے شہریوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے، شام  میں داعش اور انکے حامیوں کی مدد کر کہ بشار الاسد کی حکومت کا تختہ الٹنے کی کوششیں جاری ہیں، اسرائیل کو طاقت ور بنانے کے لئے حزب اللہ کا کردار بعض ملکوں کی آنکھوں میں شدید کھٹک رہا ہے، ایران میں سیاسی و معاشی استحکام اور مضبوط دفاع کا ہونا بھی قابلِ ہضم نہیں ، سعودی عرب کا ہر شہری اپنے ملک میں ایک گھٹن محسوس کر رہاہے ، حکومت کے خلاف بات کرنے والے کی سزا موت ہے، سعودی عرب کے اندر کے حالات دن بدن خراب ہوتے جارہے ہیںاور اسکے ہمسایہ ممالک کیساتھ تعلقات بھی کسی سے پوشیدہ نہیں، ساری مسلم دنیا سعودی عرب کے پیسے کی وجہ سے تناؤ اور اُسکی پیدا کردہ تنظیموں کی وجہ سے عدم استحکام کا شکار ہے ۔ ایسی صورتحال میںسعودی عرب کی چیک بْک ڈپلومیسی کا نتیجہ عالم اسلام کی مذید تفریق ، تقسیم اور نفاق کا سبب اورمذہبی و مسلکی بنیادوں پر ایک دوسرے سے لڑنے کی صورت  اور ضیاء الحق کا نفرتوں بھرا دور واپس آ سکتا ہے ، جسے سمجھنے کی ضرورت ہے ۔ایسی صورتحال میں پاکستان کے ریٹائرڈ جنرل کو مسلکی بنیادوں پر بننے والے اس اتحاد کا حصہ بنا کر ایک طرف جنرل راحیل کی نیک نامی پر سوالیہ نشان تو دوسری طرف پاکستان کے اندر ایک نئی جنگ  اور معاشرے کی واضح تقسیم کی بنیا د رکھی جارہی ہے۔ تجزیہ نگاروں کے مطابق انجمن متاثرین شیخ محمد بن عبدالوہاب کے نا م نہاد اتحاد اور ان کی فاتحانہ سوچ کا مقصد مستقبل میں شیعہ مسلمانوں کے خلاف  نبرد آزما ہونااور اس الجیش اسلامیہ کی حقیقی منزل شام ، بحرین ، نائیجیریا،یمن اورعراق پر لشکر کشی اورشیعہ مسلمانوں پر کاری ضرب لگانا  اورایران کو کمزور کرنے کی بھیانک سازش ہے۔  حقیقت میں اگر دیکھا جائے تو جو ممالک داعش کے خلاف برسرپیکار  ہیں وہ تو اس اتحاد میں بالکل بھی شامل نہیں پھر یہ کیسا اتحاد اور کس کے خلاف۔ ؟سعودی سرمایہ سے بننے والے اتحاد اور بے بس ، بے حس اور لاچار اسلامی دنیا کو نصف صدی سے زائد عرصے سے کشمیر میں ہندوستانی اور فلسطین میں غاصب اسرائیل کی ریاستی دہشت گردی اور بوسنیا ہر زیگوینا اور برمامیں مسلمانوں کی نسل کشی بالکل بھی نظر نہیں آتی۔؟سعو دی عرب نے عراق، لیبیا، شام، مصر،  تیونس، بحرین، یمن سمیت بہت سے اسلامی ممالک میں جس طرح مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلی اور جو بھیانک کردار ادا کیا اسے بھی بھلایا نہیں جا سکتا ۔ جو اتحاد ابھی بنا ہے سعودی عرب سمیت اسی کے چھ رکن ممالک  کے ہاتھ یمن میں نہتے مسلمانوں کے خون سے رنگین ہیں حالانکہ وہاں تو کوئی داعش ، القاعدہ یادولت اسلامیہ کے خلاف یہ کاروائیاں نہیں ہو رہیں۔سنی مسلمانوں کا نام استعمال کر کے قائم کیے جانے والے اتحاد کے سرپرست  اور عالمِ اسلام کے ہمدردسعودی عرب کے بارے میں مسلم دنیا یہ بھی جانتی ہے کہ خلافت ِ عثمانیہ توڑنے میں کس منحوس خاندان کا ہاتھ تھا اور سنی مسلمانوں کے کردار کو کس طرح عرب اور بالخصوص مقامات ِ مقدسہ سے ختم کیا گیا۔؟  خلافت عثمانیہ کے  خلاف بغاوت کرنے  اور توڑنے میں آل ِ سعود کے کردار کو جاننے کے لیے برطانوی جاسوس ہمفر کی یاداشتوں کو پڑھ کر اپنی یاداشت اور طبیعت بحال کی جاسکتی ہے۔ ہمفر کا محمد بن عبدالوہاب  کے ساتھ مل کر  قرآن کی تفسیر اور محمد بن سعود کو ملنے والے مال و دولت اور اسلحہ بھی اسکی یاداشتوں کا  حصہ ہے۔محسوس یہ ہوتا ہے کہ ہم نے تاریخ سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔  یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ انسان کوہلوں کی کان میں چلا جائے اور منہ کالا کر کے واپس نہ آئے۔امیر الجیش کے لئے عرض ہے کہ تاریخ بڑی بے رحم ہے وہ کسی کو معاف نہیں کرتی۔آپ نشان ِ حیدر پانے والے شہیدوں کے وارث ہیں ، آپ کی گردن میں اسّی ہزار ڈالرکی مالیت سے  تیار کردہ بابرکت اسلامی سپہ سالاری کا میڈل ایسی سوچ  و فکر اور نظریہ د ینے والوں نے لٹکایا ہے جو گردنیں کاٹنے  اور اس سے فٹبال کھیلنے میں مہارت رکھتے ہیں۔۔۔!