جمعه 7 اردیبهشت 1403

14 August 2023

آل سعود و آل یہود پاکستان میں بدامنی کے خواہاں/ تلورکے شکارکی آڑ میں پاکستانی لڑکیوں کا جنسی استحصال

آل سعود و آل یہود پاکستان میں بدامنی کے خواہاں/ تلورکے شکارکی آڑ میں پاکستانی لڑکیوں کا جنسی استحصال


پاکستانی نامہ نگارانعام ملک نے اپنی خصوصی رپورٹ میں لکھا کہ قطری شہزادے پاکستان میں تلور کے شکار کو صرف ایک بہانے کے طور پراستعمال کرتے ہیں اس کے پشت پردہ کچھ اور ہی کھیل چل رہا ہے۔ وہ سوال کرتے ہیں کہ تلور کا شکار قطری یا عرب شہزادوں کے لئے اتنا مہم کیوں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ مغربی لوگ بھی تلور میں بڑی دلچسپی رکھتے ہیں، یہ لوگ اس مقصد سے پاکستان کیوں نہیں آتے؟ در اصل مسئلہ یہ ہے کہ قطری شہزادوں کے لئے تلور کا گوشت کوئی خاص اہمیت نہیں رکھتا کہ وہ اتنا پیسہ خرچ کرکے اس کا شکار کریں۔ وہ اربوں روپیے کیوں تلور کے شکار پر خرچ کرتے ہیں۔

تلور وہ پرندہ ہے جو سردی سے بچنے کے لیے پاکستان اور عراق کے صحرائی علاقوں کی جانب ہجرت کرتا ہے لیکن اس کے پیچھے پیچھے عرب شیوخ بھی پاکستان پہنچ جاتے ہیں۔ قابل ذکر ہے کہ اس سفر میں ان کے ساتھ ان کی بیگمات نہیں ہوتیں لیکن ان کے خیموں سے بلند ہوتی چیخیں کچھ اور ہی داستاں سناتی ہے۔ تلور کا گوشت جنسی خواہشات کو بڑھانے کی دوا کے طورپر بھی استعمال کیا جاتا ہے ۔

تلوران پرندوں میں ہے جن کی نسل خطرے کا سامنا کر رہی ہے۔ یہ ہرسال سردی سے بچنے کے لیے وسطی ایشیاء سے ہجرت کرکے پاکستان اور عراق کے صحرائی ریتلے علاقوں کا رخ کرتے ہیں لیکن یہ معصوم پرندہ ان ریتلے علاقوں میں عرب یا قطری شیوخ کے شوق کے بھینٹ چڑھ جاتا ہے ۔ تلور کے شکار پر پاکستان میں پابندی عائد ہے لیکن اس کے باوجود قطری شہزادے اس کا شکار کرتے ہیں۔

تلور پرندہ زیادہ تر پاکستان، ہندوستان، بنگلادیش اور عرب ممالک میں پایا جاتا ہے۔ پاکستان کے مقامی افراد بھی اس نایاب پرندے کا شکار کرتے ہیں۔

انعام ملک کا کہنا ہے کہ ایک بار میں بھاولپور کے دورے پر تھا اور میں نے اس پرندے کا شکار کیا۔ اس پرندے کا ذائقہ زیادہ اچھا نہیں جبکہ گجرانوالہ کے مقامی کھانے اس سے زیادہ لذیذ ہوتے ہیں۔ اسی بنیاد پر یہ سوال میرے ذہن میں ہمیشہ گردش کرتا رہا کہ اس ناچیز پرندے کے شکار کے لئے اتنے پیسے کیوں خرچ کیے جاتے ہیں۔ کیوں قطری شہزادے میڈیا کے دباؤ کو برداشت کرتے ہوئے پاکستان کا دورہ کرتے ہیں؟

کچھ عرصے پہلے مجھ پر یہ معمہ حل ہو گیا۔ یہ میرے زندگی سب سے تلخ ترین معمہ تھا جو میں نے حل کیا۔ اس سے پہلے میں نے قطری شہزادوں کی سیکورٹی پر مامور سیکورٹی ٹیم کے ایک اہلکار سے ملاقات کی جو اسلام آباد میں کام کی تلاش میں در در بھٹک رہا تھا۔ میں نے اس سےتعجب سے پوچھا کہ آپ کی تنخواہ تو دولاکھ روپیے تھی پھر آپ کام کی تلاش میں کیوں ہیں؟ پاک فوج کے اس غیرت مند سیکورٹی اہلکار نے کہا کہ میں فوجی ہوں، مجھے یہ تنخواہ پسند نہیں ہے۔ اس جواب سے میرے تعجب میں مزید اضافہ ہو گیا، میری تشنگی مزید بڑھی، انہوں نے کہا کہ میں سیکورٹی ٹیم میں شامل تھا، میں ائیرپورٹ سے شکارگاہ تک قطری شہزادوں کے ساتھ تھا، میں صبح سے شام تک ان کےساتھ رہا، مجھ سے زیادہ ان کے سفر کی تفصیلات کسی کو بھی پتا نہیں ہے۔

شہزادے جب غروب کے وقت اپنے خیمے میں لوٹتے تھے، تھوڑا آرام کرتے تھے تاکہ گوشت بھن جائے اور دسترخوان پر لگا دیا جاتا اور پھر وہ بیٹھ کر تلور کا گوشت کھاتے اور پھر اپنے خیموں میں لوٹ جاتے تھے جہاں ان کی رات رنگین کرنے کے لئے مقامی لڑکیاں پہنچائی جاتی تھی ، افسوس کی بات یہ ہے کہ ان لڑکیوں کی عمریں 14 سال سے زیادہ نہیں ہوتی تھی، یہ حکومت اور مقامی افراد کی خیانت ہے، ملک سے غداری ہے۔ اس واقعے نے میرے ضمیر کو ہلا کر رکھ دیا۔