جمعه 31 فروردین 1403

14 August 2023

بشار الاسد کی حکومت گرانے کی باتیں اب پرانی ہو گئیں

بشار الاسد کی حکومت گرانے کی باتیں اب پرانی ہو گئیں


شام کی موجودہ صورتحال کے پیش نظر کوئی بھی بشار اسد حکومت کو گرانے کی بات نہیں کرسکتا اور اگر کرے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ وہ موجودہ سیاسی صورتحال سے مکمل طور پر غافل ہے۔

 روزنامہ السفیر کے مطابق، سال 2016 ایسی حالت میں ختم ہونے جا رہا ہےکہ مزید کوئی بھی شامی صدر بشار اسد کی حکومت گرانے کی بات نہیں کر رہا اور یہ موضوع مزید ختم ہوچکا ہے اور اگر کوئی اس بات پر تبصرہ کرنا چاہے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ وہ خطے اور بین الاقوامی سشپ پر سیاسی پیش رفت سے مکمل طور پیچھے رہ گیا ہے۔

اسی ضمن میں ترجمان روسی وزارت خارجہ ماریہ زاخاراف نے ہمیشہ کی طرح وضاحت دی: مزید کوئی بھی شخص بشار اسد حکومت کے گرنے کی بات نہیں کررہا سوائے انتہا پسندوں یا دہشتگردوں کے جو اس حکومت کے سخت مخالف ہیں۔

اس موضوع کو عربی اور یورپی سطح پر بخوبی مشاہدہ کیا جاسکتا ہے۔

یورپی اور عربی ممالک کی حالیہ گفتگو کے پیش نظر جو قاہرہ میں وزرائے خارجہ کی سطح پر ہوئی، سے معلوم ہوتا ہے کہ مصر کا موقف شام کے سرکاری موقف کے بالکل نزدیک ہوگیا ہے۔

اس سلسلے میں  مصر کے ایک اعلی عہدیدار نے تاکید کی کہ مشترکہ اعلامیہ میں ایک بند کو دہشتگردوں اور ان کے حامیوں کی مذمت سے مختص کیا جائے۔

انہوں نے کہا: وہ عناصر جو حلب آزادی پر آنسو بہا رہے ہیں، کو چاہئے تھا کہ دہشتگردوں کی حمایت نہ کرتے اور ان کو حلب میں تعینات نہ کرتے۔

مصر کی جانب سے یہ موقف جو الجزائر اور عراق کی مانند بعض دیگر عرب ممالک کا موقف بھی تھا، مکمل طور پر قطر اور سعودی عرب کے موقف کے خلاف ہے۔

دوسری جانب یورپی یونین شام جنگ سے مرتبط ممالک کے نمائندوں کے ساتھ علیحدہ علیحدہ ملاقاتوں کی تیاری کر رہا ہے جن میں ترکی، ایران، سعودی عرب، مصر، قطر، اردن اور لبنان شامل ہیں۔

ان اجلاسوں کا مقصد ذکر شدہ ممالک کی ریڈ لائینز کا تعین کرنا ہے جن کے آپس میں مشترکہ نکات بھی ہیں جو سیاسی راہ حل میں مددگار ثابت ہوسکتے ہیں۔