شنبه 1 اردیبهشت 1403

14 August 2023

’دوست دوستوں کو سلامتی کونسل نہیں لے کر جاتے‘، امریکی سفیر طلب

’دوست دوستوں کو سلامتی کونسل نہیں لے کر جاتے‘، امریکی سفیر طلب


اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی جانب سے غربِ اردن میں غیر قانونی بستیوں کے قیام کے خلاف قرارداد کی منظوری کے بعد اسرائیل نے امریکہ پر الزام لگایا ہے کہ واشنگٹن نے اس ووٹ کی حمایت کی۔

 

اسرائیل اور امریکہ کے درمیان تعلقات میں کشیدگی مزید بڑھ گئی ہے اور تل ابیب میں امریکی سفیر کو طلب کیا گیا۔

اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نیتن یاہو جو وزیر خارجہ بھی ہیں نے امریکی سفیر ڈین شپیرو کو وزیر اعظم ہاؤس طلب کر کے یہ غیر معمولی قدم اٹھایا۔

 

اسرائیل نے یہ قدم ایسے وقت اٹھایا ہے جب وہ پہلے ہی کہہ چکا ہے کہ وہ اقوام متحدہ کے شرمناک قدم کی مخالفت کرے گا۔

اسرائیل نے اپنے قریبی حلیف امریکہ پر الزام لگایا ہے کہ اس نے سلامتی کونسل میں ووٹ کو منظم کیا۔ تاہم امریکہ نے اس الزام کی تردید کی ہے۔

اسرائیلی وزیر اعظم نے کہا 'جو معلومات ہمیں ہیں ہمیں کوئی شک نہیں کہ اوباما انتظامیہ نے اس ووٹ کی ابتدا کی، اس کی حماحت کی، اس کے الفاظ کے حوالے سے رابطے کیے اور مطالبہ کیا کہ اس قرارداد کو منظور کیا جائے۔'

انھوں نے مزید کہا 'دوست دوستوں کو سلامتی کونسل میں نہیں لے کر جاتا۔'

اس سے قبل اسرائیلی وزیر اعظم نے دفتر خارجہ کو حکم دیا کہ ان ممالک کے سفیروں کو طلب کیا جائے جنھوں نے سلامتی کونسل میں قرارداد کے حق میں ووٹ دیا تھا۔

یاد رہے کہ یہ قرارداد مصر کی جانب سے پیش کی گئی تھی تاہم گذشتہ چند روز میں امریکی نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی مداخلت کے بعد مصر نے اسے موخر کر دیا تھا۔ اس کے بعد سلامتی کونسل کے دیگر ممالک نیوزی لینڈ، سینیگال، وینزویلا اور ملائیشیا نے اس قرارداد کو دوبارہ پیش کیا اور اسے منظور کروانے میں اہم کردار ادا کیا۔

سلامتی کونسل کی قرارداد کے بعد اسرائیل نے نیوزی لینڈ اور سینگال سے اپنے سفیر واپس بلا لیے ہیں۔ اس کے علاوہ سینیگال اور یوکرین کے وزرائے خارجہ کے اسرائیل کے دوروں کو بھی منسوخ کر دیا ہے۔

بنیامن نیتن یاہو نے کہا کہ وہ اس قرارداد کو واپس کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کریں گے۔

انھوں نے مزید کہا کہ اسرائیل نے اقوام متحدہ کے پانچ اداروں کی مالی معاونت روک دی ہے اور یہ وہ ادارے تھے جو اسرائیل پر تنقید کرتے ہیں۔

ماضی میں امریکہ نے ایسی قراردادوں کو ویٹو کر کے اسرائیل کی مدد کی ہے۔ تاہم اوباما انتظامیہ نے روایتی امریکی پالیسی ترک کر کے اس مرتبہ اس قرارداد کو منظور ہونے دیا ہے۔

سلامتی کونسل کے 15 رکن ممالک میں سے 14 نے اس قرارداد کی حمایت میں ووٹ ڈالے جبکہ امریکہ نے ووٹ ڈالنے سے انکار کر دیا، تاہم اس نے اس موقعے پر قرارداد کے خلاف ویٹو کا حق بھی استعمال نہیں کیا۔