جمعه 10 فروردین 1403

14 August 2023

ارشادات برائے زیارت امام حسین ؑ بروز چہلم

ارشادات برائے زیارت امام حسین ؑ بروز چہلم


بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
الحمد للہ رب العالمین و الصلاۃ والسلام علی سیدنا محمد و آلہ الطاھرین۔

بعد از آں جن مومنین کو اللہ تعالی نے اس زیارت ِشریفہ کی توفیق دی ہےانہیں اس بات کی طرف ملتفت ہونا چاہیئے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اپنے بندوں میں سے انبیاء و اوصیاء قرار دیئے تاکہ وہ لوگوں کے لیئے اسوہ و نمونہ عمل اور ان پر اللہ کی حجت قرار پائیں اور ایسا اسلیئے کہ لوگ انکے افعال کی اقتداء کرتے ہوئے انکی تعلیمات سے ھدایت حاصل کریں ۔اور اسہی نے ان کے ذکر کو باقی رکہنے اور ان کے مقام و منزلت کو بلند رکہنے کے لیئے ان کی زیارت کی طرف لوگوں کو رغبت دلائی ۔تاکہ لوگوں میں اللہ تعالیٰ اور اسکی تعلیمات و احکام کا تذکرہ باقی ر ہے۔ اور بیشک یہی انبیاء و اوصیاء علیہم السلام ہیں کہ جو پروردگار کی اطاعت،اسکی راہ میں جہاد کرنے اور اس کے دین ِقویم کی خاطر قربانی دینے میں مثل اعلیٰ ہیں۔
پس اسہی بنا پر اس زیارت کے تقاضوں میں سے ہے کہ امام حسین ؑ کی فی سبیل اللہ قربانی کی یاد منانے کے ساتھ ساتھ دین حنیف کی تعلیمات جیسا کہ نماز۔حجاب۔اصلاح ۔عفوو درگزر حلم۔ادب۔حرمات الطریق(عام راستوں پر حق عام کا خیال رکہنا) اور دیگر تمام اعلیٰ معانی کی مراعات ہونی چاہیئے ۔تاکہ یہ زیارت بفضل خداوند تعالیٰ ان اچھے آداب و اقدار کی تربیت دینے کیلیئے ایک ایسا قدم ہو سکے جسکے آثار دائمی و تا دیر برقرار رہیں حتی کہ مستقبل میں آنے والی زیارتوں کے لیئے بھی یادگار رہیں۔یہاں یہ واضح رہے کہ ان زیارتوں میں حاضر ہونا خود امام (علیه السلام) کی مجالس تعلیم و تربیت میں حاضر ہونے جیسا ہے۔
ہمیں اگرچہ دورِ حضور آئمۃ اھل بیت ؑ تو حاصل نہیں ہواکہ ھم خود ان سے سیکھتے اور تربیت حاصل کرتے اور انہی کے دست مبارک سے پرورش پاتے، مگر اللہ تعالیٰ نے ہمارے لیئے انکی تعلیمات اور ان کے موقف کو محفوظ فرمایا اور ہمیں انکے مشاھد و مزارات کی زیارت کا شوق عطاء کیا تاکہ وہ ہمارے لیئے روشن مثالیں قرار پائیں۔اور ساتھ ہی اس زیارت کے ذریعے ہمارے اس دعوے کی سچائی کا امتحان بھی مقصود ہے کہ جو ھم ان حضرات کی رفقت کی تمنیٰ کرتے ہیں ۔اور یہ بھی دیکھنا ہے کہ ھم انکی تعلیمات و موعظۃ کو کس قدر قبول کرتے ہیں جیسا کہ پروردگار نے آئمۃ ؑ کے ساتھ رہنے والوں کا امتحان لیا تھا ۔
اب ہمیں اس بات کی فکر کرنی چاہیئے کہ کہیں ہمارا شوق و تمنی حقیقت میں غیر صادق تو نہیں ۔ہمیں یہ بات جان لینی چاہیئے کہ اگر ھم ویسے ہی بن جائیں کہ جیسا اہل بیت ؑ چاہتے ہیں توامید ہے کہ ھم بھی ان کے ساتھ زندگی کزارنے والے ساتھیوں میں ہی محشور ہوں گے۔
جناب امیر المومنین ؑ سے نقل کیا گیا ہے کہ جب آپ ؑ نے جنگ جمل کہ موقع پر فرمایا(یقیناًہمارے ساتھ اسوقت وہ لوگ بھی حاضر ہیں کہ جو ابھی تک مردوں کے اصلاب اور عورتوں کےارحام میں موجود ہیں)۔ پس ھم میں سے جو بھی تمناء اھل بیت ؑ میں سچا ہوگا اسکے لیئےدشوار نہ ہوگا کہ تعلیمات اھل بیت ؑ پر عمل کرے اور انہی کی اقتداء کرے تاکہ وہ ان حضرات کی پاکیزگی سے تذکیہ حاصل کرے اور انہی کے آداب سے آراستہ ہو جائے۔
اللہ اللہ نماز کا خیال کیا جائے!!جیسا کہ حدیث شریف میں وارد ہوا کہ یہ عمود (ستون) دین اور معراج مومنین ہے اگر یہ قبول ہوگئی تو باقی سب بھی قبول ہوگا اور اگر یہ رد ہوگئی تو پھر باقی سب اعمال رد ہوجائیں گے،مناسب ہے کہ نماز کی پابندی اول وقت میں کی جائے،چوں کہ اللہ کامحبوب ترین بندہ وہ ہے جو اسکی نداء پر سب سے پہلے لبیک کہے۔اور یہ ہرگز مناسب نہیں کہ مومن اول وقت نماز میں کسی اور اطاعت گزاری کے کام میں مشغول ہو۔یہ نماز سب سے افضل اطاعت ہے۔اور اہل بیت ؑ سے وارد ہوا ہے کے (ہماری شفاعت ان لوگوں کو نہ ملے گی جو نماز کو معمولی جانتےہوں)۔اورخود امام حسین ؑ بھی یوم عاشوراء بھی نماز کا خاص خیال کرتے ہوے نظر آتے ہیں یہاں تک کہ اس شخص سے فرمایا جس نے اول وقت میں نماز کا تذکرہ کیاتھا( تم نے نماز کو یاد کیا ،اللہ تمہیں مصلینِ میں سے قرار دے) پھر امام ؑ نے تیروں کی بارش میں میدان قتال میں نماز ادا کی۔
اللہ اللہ اخلاص کا سوچیں! کیوں کہ انسان کے عمل کی قدر و قیمت اور اسکی برکت اس ہی مقدار میں ہے کہ جتنی مقدار میں اللہ تعالیٰ کے لیئے اسکا اخلاص ہوگا ۔بیشک اللہ تعالیٰ تو صرف وہی عمل قبول کرتا ہے جو خالصتا اس ہی کے لیئے ہو اور اس کے غیر کی طلبگاری سے خالی ہو۔اور نبی اکرمﷺ سے یہ جملہ مسلمانوں کی مدینہ ھجرت کے وقت وارد ہوا کہ یقیناً جو کوئی اللہ ورسول کی طرف مھاجر ہوا تو اسکی ھجرت اللہ کے لیئے ہوئی،اور جو دنیا کی جانب مھاجر ہوا تو اسکی ھجرت دنیا کے لیئے ہوگی۔ کوئی شک نہیں کہ اللہ یقیناً ثوابِ عمل کو درجہ اخلاص کے حساب سے بڑھا دیتا ہے حتی کہ سات سو گنا اضافہ بھی کردیتا ہے،اور اللہ تو جس کے لیئے چاہے اضافہ کرتا ہے۔
بس زائرین کو چاہیئے کہ راہ زیارت میں زیادہ سے زیادہ اللہ کا ذکر کریں اور اپنے ہر قدم، ہر عمل میں اخلاص پیدا کریں اور یہ بات جان لینی چاہیئے کہ اللہ تعالی نے اپنے بندوں کوایسی کوئی نعمت مرحمت نہیں فرمائی کہ جیسی نعمت اعتقاد ، قول اور فعل میں اخلاص کی نعمت ہے۔بغیر اخلاص انجام دیا جانے والا عمل اس زندگی کے خاتمے کے ساتھ ختم ہوجائے گا۔صرف اللہ تعالیٰ کے لیئے خالص عمل مبارک و دائمی ہوگا ،جو اس دنیا میں بھی اور اس کے بعد بھی باقی رہے گا۔
اللہ اللہ پردہ و حجاب کا خیال رہے،بیشک یہ وہ مھم ترین چیز ہے کہ جسکا اھل البیت علیہم السلام نے خیال رکہا حتی کہ کربلاء میں ان شدید مصائب میں بھی اھتمام کیاکہ وہ اس معاملے میں مثل اعلیٰ ہیں۔اور انہوں نے دشمنوں کے حملوں سے بھی اتنی اذیت نہیں اٹھائی کہ جتنی تکلیف لوگوں کے سامنے بے پردگی و ہتک حرمت سے انہیں ہوئی۔لہذا تمام زوّار خاص طور پر مومنات پر لازم ہے کہ وہ اپنے لباس و منظر میں اور اپنے تمام افعال میں عفت کے تقاضوں کو پورا کریں اور ہر اس چیز سے اجتناب کریں کہ جو اس تقاضہ عفت کے منافی ہو جیسا کہ تنگ لباس زیب تن کرنا، لوگوں میں ایسے مخلوط ہونا کے جو باعث مذمت ہو،یا ایسی زینت کرنا کے جس سے منع کیا گیا ہے ۔بلکہ اس عظیم زیارت ،ان شعائر مقدسہ کو ہر قسم کی نامناسب تہمتوں سے دور رکہنے کے لیئے، منافی عفت چیزوں سے ہر ممکن اورآخری درجہ تک اجتناب کرنا چاہیئے۔
ھم اللہ تعالیٰ سے ملتمس ہیں کے نبی المصطفیٰ ﷺاور انکے اھل بیت کے مقام کو دنیا وآخرت میں مزید بلند فرما ئےان قربانیوں کی بناء پر جو انہوں نے اسکی راہ میں دیں اور وہ
جدوجہد جو اسکی خلق کی ھدایت کے لیئے کی۔اور ان پر وہ عظیم صلوات نازل فرما کہ جیسی انسےپہلےمصطفین،بالخصوص ابراھیم وآل ابراھیم (علیھم السلام)پر نازل کی۔اور اس ذات تعالیٰ سے یہ بھی دعاء ہے کہ زوارِ ابی عبداللہ الحسین (علیه السلام) کی زیارت میں برکت عطاء فرمائے اور جو قبولیت وہ اپنے عباد صالحین کے عمال پر دیتا ہے اس زیارت کو اس سے بھی افضل شرف قبولیت عطاء فرمائے۔تاکہ زائرین اس زیارت اور اسکے بعد کی زندگی میں اپنے سیر وسلوک کے ساتھ دوسروں کے لیئے ایک مثال بن جائیں۔اور انکواھل بیت(علیھم السلام) سے انکی ولایت و محبت ،اپنی زندگی میں انہی کی اقتداء کرنے، اور پیغام اھل بیت کی تبلیغ کرنے پر جزائے خیر عنایت فرمائے ۔امید ہے کہ انہیں روز قیامت اھل بیت (علیهم السلام) کے ساتھ بلایا جائے گا جیسا کہ ہر شخص کو اسکے امام کے ساتھ بلایا جانا ہے۔اور ان کے شھداء کو شھداء امام حسین (علیه السلام) اور انکے اصحاب کے ساتھ محشور فرمائے چونکہ انہوں نے اپنے نفسوں کو قربان کیا اور ولایت کی خاطر ظلم و ستم سہے۔بیشک کہ وہ بہت سننے والا اور جواب دینے والا ہے۔